Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ)
2 - 166
وردہ الخادمی بان ماء البحر لم یزل عن طبعہ بعارض کالماء الحار بل عند تخلیتہ علی طبعہ شأنہ عدم الانبات ۱؎ اھ
اور اس کو خادمی  نے رد کیا کہ گرم پانی کی طرح سمندری پانی اپنی طبیعت سےزائل نہیں ہوا ہے کسی عارض کی وجہ سے، بلکہ اگر اس کو اس کی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تب بھی اس میں عدمِ انبات ہے اھ (ت)
 (۱؎ درر شرح غرر للخادمی    کتاب الطہارت     مکتبہ عثمانیہ مصر    ۱/۲۱)
اقول وھذاوجیہ فان الاصل عدم العارض وان کان لایتم الاستدلال علیہ بقولہ عزوجل
وھو الذی مرج البحرین ھذا عذب فرات وھذا ملح اجاج وجعل بینھمابرزخا وحجرا محجورا ۲؎،
میں کہتا ہوں یہ بات مدلل ہے کہ اصل عارض کا نہ ہونا ہے اگرچہ اس پر استدلال اللہ تعالٰی کے قول وھو الذی مرج البحرین ھذا عذب فرات وھذا ملح اجاج وجعل بینھما برزخا وحجرا محجوراسےتام نہیں ہوتا،
 (۲؎ القرآن     ۵۳/۲۵ )
فان المرج ھوالخلط والارسال ولایلزم ان یکون فی بدء خلقھما بل بعد تغیر احدھما بعارض واللّٰہ تعالٰی اعلم فلواکتفی الخادمی بھذا کان رداعلی دعوی ان الثلثۃ من طبع الماء لکنہ اراد قبلہ النقض علی قاعدۃ المتن فی منع الوضوء فانعکس علیہ الامر اذردد فبددفقال ان ارید المجموع من حیث ھو مجموع فیرد بماء البحر اذلیس فیہ ارواء وانبات وان ارید واحد منھا فبنحوماء البطیخ اذفیہ ارواء ولم یجز بہ الوضوء ۳؎ اھ
کیونکہ مرج کے معنی ملانے اور چھوڑ نے کے ہیں،اور یہ لازم نہیں کہ یہ صورت ان کی ابتداء تخلیق میں ہو،بلکہ ان میں سےکسی ایک کو عارض کی وجہ سےمتغیر ہو نے کے باعث ہو واللہ تعالٰی اعلم، تو اگر خادمی   اسی پر اکتفا کرلیتے تو یہ اس دعویٰ کا رد ہوجاتا  کہ یہ تینوں چیزیں پانی کی طبیعت ہیں، لیکن انہوں نے اس سےقبل نقض کا ارادہ کیا وضو کے ناجائز ہو نے کے بارہ میں متن کے قاعدہ پر، لیکن معاملہ اُلٹ ہوگیا،اس لئے کہ انہوں نے تردید کی اور تفریق کی، پس فرمایا اگر تینوں کا من حیث المجموع کا ارادہ کیاجائے تو اس کا رد سمندر کی پانی سےکیا جائےگا،کہ اس میں نہ اگانا ہے اور نہ زرخیزی،(حالانکہ اس سےوضو جائز ہے) اور اگر ان میں سےایک کا ارادہ کیا جائے تو تربوز کے پانی وغیرہ سےرد ہوگا کہ اس میں سیراب کرنا ہے لیکن اس سےوضو جائز نہیں اھ (ت)
 (۳؎ درر شرح غرر للخادمی    کتاب الطہارۃ    مکتبہ عثمانیہ مصر    ۱/۲۱)
اقول: انما(۱) قاعدۃ المتن ماتقدم نقلہ من قولہ لابماء زال طبعہ الخ فان ارید المجموع لم یرد ماء البحر اذلم یزل منہ الکل لبقاء السیلان وان ارید واحد منھالم یرد ماء البطیخ لانہ قدزال منہ الانبات ھذا ان ارید بہ ماخالطہ ولو اراد مایستخرج منہ خرج رأسا بقولہ ماء فکان علیہ ان یعکس فیقول ان ارید الکل یرد ماء البطیخ لبقاء اثنین السیلان والارواء وان ارید واحد منھا یرد ماء البحر لزوال اثنین الانبات والارواء نعم لوکانت عبارۃ المتن یجوز بماء بقی علی طبعہ کان النقض کماذکر۔
میں کہتا ہوں متن کا قاعدہ وہ ہے جو منقول ہوا، ان کے قول لابماء زال طبعہ الخ میں،اور اگر مجموع کا ارادہ کیا جائے تو سمندری پانی سےاعتراض نہ ہوگا کہ اس کے تمام اوصاف زائل نہیں ہوئے ہیں کیونکہ اس میں سیلان باقی ہے،اور اگر ان میں سےایک کا ارادہ کیا جائے تو تربوز کے پانی سےاعتراض نہ ہوگاکیونکہ اس میں ایک وصف انبات زائل ہوا ہے یہ تقریر اس صورت میں کہ جب تربوز کا مخلوط مادہ مراد لیا جائے اور اگر اس سےخارج کیا ہوا پانی مراد لیا جائے توپھرتقریراس کے  برعکس ہوگی اوریوں کہاجائے گاکہ اگر تینوں امور کا مجموعہ مراد ہو تو پھر تربوز کے پانی سےاعتراض وارد ہوگا کیونکہ اس سےتینوں کا زوال نہیں ہے بلکہ اس میں سیلان اور سیرابی باقی ہے اور اگر تینوں میں سےکسی ایک کو طبیعت قرار دیا جائے تو سمندری پانی سےاعتراض ہوگا کہ اس کے دو وصف زائل ہوئے ہیں، اگانا اور سیراب کرنا، ہاں اگر متن کی عبارت یوں ہوتی کہ وضو جائز ہے اس پانی سےجو اپنی طبیعت پر باقی ہو تو نقض وہ ہوتا جو ذکر کیا۔ (ت)
فان قلت لم لایقال انہ صرف الکلام من المنطوق الی المفھوم ولاشک ان المفھوم منہ ھو ھذا ای الجواز بما بقی علی طبعہ ۔
اگر یہ کہا جائے کہ یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کلام کو منطوق سےمفہوم کی طرف پھیر دیا ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس کا مفہوم یہی ہے، یعنی جو پانی اپنی طبیعت پر باقی ہو اس سےوضو جائز ہے۔ (ت)
اقول: لیس ھذا مفھومہ بل مفھومہ الجواز بمالم یزل طبعہ فیبقی التعکیس کما کان لانہ اذا ارید بالطبع المجموع کان المعنی یجوز بمالم یزل عنہ الکل فلا یردماء البحر لبقاء السیلان فیہ واذا ارید واحد کان المعنی یجوز بمالم یزل عنہ شیئ اصلا فلایرد ماء البطیخ لزوال الانبات بخلاف قولک یجوز بمابقی علی طبعہ فانہ لوارید الکل کان الجواز منوطا ببقاء الکل فیرد ماء البحر اوالبعض فماء البطیخ ھذا وقال العلامۃ البرجندی المراد طبع جنس الماء وھو الرقۃ والسیلان کذا قیل وفی الخزانۃ طبع الماء کونہ سیالا مرطبا مسکنا للعطش ولایخفی ان ماء بعض من الفواکہ کذلک فلو اختلط بالماء وغلبہ ینبغی ان یجوز التوضی منہ ولیس کذلک ۱؎۔
میں کہتا ہوں یہ اس کا مفہوم نہیں،بلکہ اس کا مفہوم اس پانی سےوضو کا جواز ہے جس کی طبیعت ختم نہ ہوئے ہو، تو تعکیس ایسی ہی رہے گی، کیونکہ جب طبیعت سےمجموعہ کا ارادہ کیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے وضو جائز ہے اس پانی سےجس سےکل زائل نہ ہوں، تو سمندری پانی سےاس پر اعتراض وارد نہ ہوگا کیونکہ اس میں سیلان کا وصف باقی ہے اور جب ایک کا ارادہ کیا جائے تو معنی یہ ہوں گی وضو جائز ہے اُس پا نی سےجس سےکچھ زائل نہ ہوا ہو، تو بِطیخ کے پانی سےاعتراض وارد نہ ہوگاکہ اس سےایک انبات کا وصف زائل ہے بخلاف آپ کے اس قول کے ''وضو جائز ہے اس پانی سےجو اپنی طبیعت پر باقی ہو'' کیونکہ اگر کل کا ارادہ کیا جائے تو جواز کا دارومدار کل کے باقی رہنے پر ہوگا تو سمندری پانی پر اعتراض وارد ہوگا اگر بعض کا ارادہ کیا جائے تو بطیخ کے پانی سےاعتراض ہوگا۔ اس کو یادرکھو۔ علامہ برجندی  نے فرمایا مراد جنس پانی کی طبیعت ہے اور وہ رقت وسیلان ہے، اسی طرح کہاگیا ہے،اور خزانہ میں ہے پانی کی طبیعت اس کا سیال ہونا، تر کر نے والا ہونا، پیاس کے لئے ت  سکےن بخش ہونا ہے اور مخفی نہ رہے کہ بعض پھلوں کا پانی ایسا ہی ہوتا ہے تو اگر وہ پانی میں مل جائے اور غالب ہوجائے تو چاہئے کہ اُس سےوضو جائز ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے اھ (ت)
 (۱؎ شرح النقایۃ للبرجندی    ابحاث الماء    نولکشور لکھنؤ    ۱/۳۱)
اقول:  ان(۱)خص الایرادبعبارۃ الخزانۃ کماھوظاھرسیاقہ فلاوجہ لہ لورودہ علی الاول ایضاسواء بسواء فان ماء بعض الفواکہ لایسلبہ الرقۃ ایضاکمالایسلبہ الارواء وان عممھما فلاوجہ لہ فان اعتبار الرقۃ مجمع علیہ وقد مشی ھوایضاعلیہ فی ضابطتہ التی وضعھاکما سیأتی فی الفصل الاٰتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی فاذن کان ینبغی الاخذ علی المتن فانہ لم یستثن فی خلط الطاھرالامااخرج الماء عن طبعہ اوغیرہ طبخاولیس فی خلط ھذاالماء شیئ من ذلک فان ارادالردعلی المتن فلاوجہ لہ فانہ قال وان اختلط بہ طاھر والعرف قاض انہ لایقال الا اذاکان الماء اکثر لان(۱)الخلط لایضاف الا الی المغلوب ففی مزج الماء والحلیب ان کان اللبن اکثر یقال لبن فیہ ماء اوالماء فماء خالطہ لبن وقدنبہ علیہ فی مجمع الانہر اذقال الخل مثلا اذا اختلط بالماء والماء مغلوب یقال خل مخلوط بالماء لاماء مخلوط بالخل ۱؎ اھ فلایشمل مااذاغلب علی الماء ماء الفاکھۃ وبالجملۃ لااری لھذا الایراد محلا ومحملا واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
میں کہتا ہوں اگر اعتراض بطور خاص خزانہ کی عبارت پر ہے جیسا کہ سیاق سےظاہر ہے تو اس کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ وہ اول پر بھی برابر سےوارد ہے کیونکہ بعض پھلوں کے پانی سےرقت سلب نہیں ہوتی جیسےاس سےسیرابی سلب نہیں ہوتی اور اگر وہ دونوں کو عام ہے تو اِس کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ رقت کا اعتبار اجماعی ہے اور وہ بھی اپنے ضابطہ میں اسی پرچلے  ہیں جیسا کہ اِن شاء اللہ تعالٰی آیندہ فصل میں آئے گا، تو اس صورت میں متن پر اعتراض کرنا چاہئے تھا، کیونکہ انہوں نے پاک کے ملنے میں صرف اُس کا وضو کے جواز سےاستثناء کیا ہے جو پانی کو اس کی طبیعت سےخارج کردے، یا پکنے کی وجہ سےاس کو تبدیل کردے اور اِس پھل کے پانی کی ملاوٹ میں اُن میں سےکوئی چیز نہیں ہے، تو اگر متن پر رد کا ارادہ کیا ہے تو اِس کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے فرمایا ہے ''اور اگر اس کے ساتھ کوئی طاہر چیز مل جائے'' اور عرف فیصلہ کر نے والا ہے کہ یہ بات اُسی وقت کہی جائے گی جبکہ پانی زائد ہو کیونکہ خلط مغلوب ہی کی طرف مضاف ہوتی ہے، تو پانی اور دودھ کے ملانے میں اگر دودھ زائد ہو تو کہا جاتا ہے یہ دودھ ہے جس میں پانی ہے، یا پانی زائد ہے تو کہا جائےگا یہ پانی ہے جس میں دودھ ملا ہوا ہے، اس پر مجمع الانہر میں تنبیہ کی ہے اور فرمایا کہ مثلاً سرکہ جب پانی میں مل جائے اور پانی مغلوب ہو تو کہا جاتا ہے سرکہ میں پانی مخلوط ہے یہ نہیں کہتے کہ پانی میں سرکہ ملا ہوا ہے اھ، تو یہ اس صورت کو شامل نہیں جبکہ پھلوں کے پانی پر پانی کا غلبہ ہوجائے، اور خلاصہ یہ کہ میں اس اعتراض کا نہ محل پاتا ہوں اور نہ محمل، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ مجمع الانہر    تجوز الطہارۃ بالماء المطلق    مطبع عامرہ مصر    ۱/۲۸)
ثم اقول: الذی یظھرلی ان الزائدین علی الرقۃ والسیلان انماارادوا بیان طبع الماء فی نفسہ لاطبع لولاہ لم یجز الوضوء کیف وھم قاطبۃ اذااتواعلی الفروع لایبنون الا مرالا علی الرقۃ والسیلان ولن تری احدا منھم یقول ان لم ینبت اویرو لم یجزبہ الوضوء فانجلی الامروا نقشع الستروللّٰہ الحمد۔
پھر میں کہتا ہوں کہ جو لوگ پانی کی طبیعت میں رقت اور سیلان پر دو چیزوں کی زیادتی کا قول کرتے  ہیں وہ فی نفسہٖ پانی کی طبیعت کا ارادہ کرتے  ہیں نہ کہ اُس طبیعت کا کہ اگر وہ نہ ہو تو وضو جائز نہ ہو، اور یہ کیسےہوسکتا ہے کہ جب وہ فروع کے بیان پر آتے  ہیں تو معاملہ کو رقت وسیلان پر ہی مبنی کرتے  ہیں، اور ان میں سےکوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ اگر پانی میں اُگانی اور سیراب کر نے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو اس سےوضو جائز نہ ہوگا، اس سےمعاملہ صاف ہوگیا وللہ الحمد (ت)
بحث سوم معنی رقّت وسیلان کی تحقیق اور اُن کا فرق۔
قال العلامۃ الشرنبلالی رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی نورالایضاح وشرحہ مراقی الفلاح  (الغلبۃ فی الجامد باخراج الماء عن رقتہ) فلاینعصرعن الثوب (وسیلانہ)فلا یسیل علی الاعضاء سیلان الماء ۱؎ اھ
علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ تعالٰی  نے نورالایضاح اور اس کی شرح مراقی الفلاح میں کہا (جامد میں غلبہ کا تحقق پانی کو اُس کی رقّت سےخارج کر نے پر ہے) پس وہ کپڑے میں سےنچوڑا نہ  جاسکے گا (اور اس کا سیلان) سےاخراج یہ کہ وہ اعضاء پر پانی کی طرح بَہہ نہ   سکے گا اھ (ت)
 (۱؎ مراقی الفلاح    کتاب الطہارۃ        الامیریہ ببولاق مصر    ص۱۵)
اقول: اولا لایخفی(۱)علیک ان الانعصارمن الثوب اخص تحققامن السیلان فلاینعصر الا مایسیل ولایجب انعصار کل سائل کالدھن والزیت والسمن واللبن والعسل کل ذلک یسیل لانھا من المائعات وما المیع الا السیلان اواخص قال فی القاموس ماع الشیئ یمیع جری علی وجہ الارض منبسطا فی ھینۃ ۲؎
میں اوّلاً کہتا ہوں کہ سیلان کی نسبت کپڑے سےنچوڑا جانا تحقق   کے اعتبار سےاخص ہے تو وہی نچوڑا جاسکتا ہے جو بہتا ہو، اور ہر بہنے والی چیز کا نچوڑا جانا لازم نہیں، جیسےتیل، گھی، دودھ اور شہد، یہ سب بہنی والی چیزیں  ہیں کیونکہ یہ مائع  ہیں اور مائع کا مطلب ہی بہنی والی چیز ہے یا مائع سیلان سےاخص ہے، قاموس میں ہے ماع الشیئ یمیع زمین پر   کسی چیز کا پھیل کر بہنا۔
 (۲؎ قاموس المحیط    فصل المیم والنون، باب العین    مصطفی البابی مصر    ۳/۸۹)
قال فی تاج العروس کالماء والدم ۱؎
تاج العروس میں ہے جیسےپانی اور خون۔
 (۱؎ تاج العروس    فصل المیم من باب العین    مطبوعہ احیاء التراث العربی مصر    ۵/۵۱۶)
وفی القاموس سال یسیل سیلا وسیلانا جری ۲؎ اھ
اور قاموس میں ہے سال یسیل سیلا وسیلانا، جاری ہوا اھ
 (۲؎ قاموس المحیط    فصل السین والشین واللام    مصطفی البابی مصر        ۴/۴۱۰)
ولیس شیئ منھا ینعصر ولذا(۱)لم یجز تطہیر النجاسۃ الحقیقیۃ بھا قال فی الھدایۃ یجوز تطھیرھابالماء وبکل مائع طاھر یمکن ازالتھابہ کالخل وماء الورد ونحوہ مما اذا عصرانعصر۳؎
اور ان میں سے  کسی چیز کو نچوڑا نہیں جاتا ہے اور اسی لئے نجاست حقیقیہ کو اِن سےپاک کرنا جائز نہیں۔ ہدایہ میں فرمایا اس کا پاک کرنا پانی اور ہر مائع سےجائز ہے جو خود پاک ہو،اور نجاست کا اُس سےزائل کرنا بھی ممکن ہو، جیسےسرکہ گلاب کا پانی وغیرہ، یعنی وہ چیزیں جو نچوڑے جا نے سےنچوڑی  جاسکیں،
قال المحقق فی الفتح قولہ اذاعصر انعصر یخرج الدھن والزیت واللبن والسمن بخلاف(۲)الخل وماء الباقلاء الذی لم یثخن ۴؎ اھ
 (۳؎ ہدایۃ  باب الانجاس وتطہیرہا   مکتبہ عربیہ کراچی   ۱/۵۴)
محقق  نے فتح میں فرمایا ''ان کا قول جب نچوڑا جائے تو نچڑ جائے، سےتیل، روغن زیتون، دُودھ اور گھی خارج ہوجاتے  ہیں بخلاف سرکہ اور باقلاء   کے پانی   کے جو گاڑھا نہ ہو اھ
 (۴؎ فتح القدیر باب الانجاس وتطہیرہامکتبہ نوریہ رضویہ سکھر  ۱/۱۷۰)
وفی المنیۃ ان غسل بالعسل اوالسمن اوالدھن لایجوز لانھا لاتنعصر بالعصر ۵؎
اور منیہ میں ہے کہ اگر شہد سےدھویا جائے یا گھی سےیا تیل سےتو جائز نہیں، کیونکہ یہ نچوڑے جا نے سےنہیں نچڑتے  ہیں،
 (۵؎ منیۃ المصلی    فصل فی المیاہ        مکتبہ عزیزیہ کشمیری بازار لاہور    ص۱۸)
قال فی الحلیۃ لان لھذہ الاشیاء لصوقابالمحل وایضا فی العسل من غلظ القوام مایمنع من المد اخلۃ فی الثوب ۶؎ اھ
حلیہ میں فرمایا اس لئے کہ یہ چیزیں اپنے محل سےچپکی ہوئی ہوتی  ہیں اور شہد کی قوام کی سختی اس کو کپڑے میں داخل ہو نے سےمنع کرتی ہے اھ
 (۶؎ حلیۃ)
Flag Counter